نئی خوبصورت اور جواں سال پڑوسن محلے میں آباد ہوئی تھی ۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ شکل ہی سے خرانٹ اور بدمزاج لگتا تھا ۔ پڑوسن کی صورت دیکھ کر ہی محلے کے مردوں کی تمام تر ہمدردیاں خاتون کے ساتھ ہو گئیں ۔ خاتون نے آہستہ آہستہ محلے کے گھروں میں آنا جانا شروع کیا ۔ شیخ صاحب اور مرزا صاحب کو اپنی اپنی شوہر

بیگمات کے توسط سے پتا چلا کہ نئی پڑوسن کا شوہر شکی ہے ۔ خاتون شوہر سے کافی ڈرتی ہیں ۔ یہ سنتے ہی دونوں مرد حضرات کی نگاہیں آسان کی طرف اٹھ گئیں ۔ دل ہی دل میں شکوہ کر لیا کہ یا اللہ کیسے کیسے ہیرے ناقدروں کو دے دیے ہیں ۔ ایک دن نئی خوبصورت پڑوسن سبزی والے کی دکان پر شیخ صاحب کو ملی ۔ خود ہی آگے بڑھ کر سلام کیا ۔

شیخ صاحب کو اپنی قسمت پر ناز ہوا ۔ خاتون نے کہا که شیخ صاحب برا نہ مانیں تو آپ سے کچھ مشورہ درکار ہے ۔ شیخ صاحب خوشی سے باؤلے سے ہو گئے ۔ خاتون نے عام گھریلو عورتوں کی طرح بھائی صاحب کہنے کے بجاۓ شیخ صاحب کہا تھا ۔ شیخ صاحب نے دلی خوشی چھپاتے ہوۓ نہایت متانت سے جواب دیا ۔ جی فرمائے ۔ خاتون نے کہا ے میرے شوہر کام کے سلسلے میں اکثر شہر سے

باہر رہتے ہیں ۔ میں اتنی پڑھی لکھی نہیں ۔ بچوں کے اسکول کے ایڈمیشن کی سلسلے میں رہنمائی درکار تھی خاتون نے کہا کہ یوں سڑک یہ کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں ۔ کیا آپ کے پاس وقت ہوگا تو چند منٹ مجھے سمجھا دیں ۔ تاکہ میں کل ہی ان کا داخلہ کروا دوں شیخ صاحب چند منٹ کیا صدیاں بتانے کو تیار تھے تر مریاں بتانے کو تیار تھے فورا شیخ صاحب چور کہا جی ضرور ۔ آئے ۔

شیخ صاحب خاتون کے ہمراہ چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوۓ ۔ ابھی صوفے پر بیٹھے ہی تھے کہ باہر اسکوٹر کے رکنے کی آواز آئی ۔ خاتون گھبرا گئی ۔ یا اللہ میرے شوہر آگئے ۔ انہوں نے تو میرا اور آپ کا قتل ہی کر دینا ہے ۔ وہ کچھ بھی نہیں سنیں گے ۔ ایک کام کیجیے ۔ یہ سامنے کپڑوں سامنے کپڑوں کا ڈھیر ہے ۔ آپ یہ نیلے دوپٹے کا گھونگھٹ نکال کر بیٹھ جائیں

اور کپڑے استری کرنا شروع کر دیں ۔ میں کہہ دوں گی که استری والی ماسی کام کر رہی ہے ۔ شیخ صاحب نے جلدی سے گھونگھٹ نکالا اور استری کرنے لگے ۔ تین گھنٹے تک استری کرتے رہے تک وہ خرانٹ شخص گھر میں موجود رہا ۔ جیسے ہی شوہر گھر سے باہر گیا ۔ سینے میں شرابور ، شوہر گھر سے باہر ” تھکن سے چور شیخ صاحب نڈھال قدموں سے گھر سے نکلے ۔ نکلے ۔ جیسے ہی باہر نکلے سامنے مرزا صاحب

آتے دکھائی دیے ۔ پوچھا کتنی دیر سے اندر ہو ۔ بولے تین گھنٹوں سے استری کر رہا ہوں ۔ مرزا صاحب نے تاسف سے دیکھا اور بولے ۔ جس کپڑوں کے ڈھیر کو تم نے تین گھنٹے استری کیا ہے ، کل میں نے ہی چار گھنٹے بیٹھ کر دھوۓ ہیں ۔ کیا تمہیں بھی نیلا دوپٹہ اڑھایا تھا شیخ صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں دوست مرے مرے قدموں سے ، اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے ۔

Sharing is caring!

شیئر کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں