رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں، اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں‘‘ یعنی وہ جیسا گمان مجھ سے رکھتا ہے میں اُس سے ویسا ہی کرتا ہوں، اور میں اُس کیساتھ ہوں جب مجھ سے دُعا کرے‘‘۔ یہ حدیث بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔
اللہ تعالیٰ کا علم و قدرت سے ساتھ ہونا تو ہر شے کیلئے ہے، یہ خاص معیت ِ کرم و رحمت ہے، جو دُعا کرنے والے کو ملتی ہے، اس سے زیادہ کیا دولت و نعمت ہو گی کہ بندہ اپنے مولیٰ کی معیت سے مشرف ہو ہزار حاجت روائیاں اس پر نثار اور لاکھ مقصد و مراد اسکے تصدق۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دُعا سے بزرگ تر نہیں‘‘۔ اسے ترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے: ’’دُعا بندے کی تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی: (۱)یا اسکا گناہ بخشا جاتا ہے، (۲)یا دُنیا میں اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے، (۳)یا اس کیلئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنی اُن دُعائوں کا ثواب دیکھے گا جو دُنیا میں مستجاب (قبول) نہ ہوئی تھیں تمنا کریگا: کاش! دُنیا میں میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں کے واسطے جمع رہتیں‘‘ مگر ایسے شخص کو کہ اپنی دُعا کا قبول ہونا اور بصورتِ عدم حصولِ مدعا ثوابِ آخرت اُسکے عوض ملنا چاہتا ہے، مناسب کہ دُعا میں اسکے آداب کی رعایت کرے۔
آدابِ دُعا جس قدر ہیں، سب اسبابِ اجابت ہیں کہ ان کا اجماع ان شاء اللہ العزیز مورثِ اجابت ہوتا ہے بلکہ اُن میں بعض بمنزلۂ شرط ہیں جیسے: حضورِ قلب و صلوٰۃ و علیٰ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعض دیگر محسنات و مستحسنات۔ جتنے بھی آدابِ دُعا ہیں وہ سب قبولیت کا سبب ہیں اگر دُعا میں ان کو جمع کر لیا جائے تو ان شاء اللہ عزوجل دُعا کی قبولیت کا باعث ہونگے بلکہ بعض آداب ایسے ہیں کہ جو دُعا میں شرط کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے: یکسوئی کیساتھ دُعا کرنا، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھنا اور دیگر نیک اُمور بجا لا کر دُعا کرنا۔
یہاں کوئی ادب ایسا نہیں جیسے حقیقتاً شرط کہیے، بایں معنی کہ اجابت اس پر موقوف ہو، کہ اگر وہ نہ ہو تو اِجابت زِنہار نہ ہو۔ (بہرحال یہاں شرط اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ اگر وہ نہ پائی جائے تو دُعا ہرگز قبول ہی نہ ہو)۔
اب یہ حضورِ قلب ہی ہے جس کی نسبت خود حدیث میں ارشاد ہوا: ’’خبردار ہو! بیشک اللہ تعالیٰ دُعا قبول نہیں فرماتا کسی غافل کھیلنے والے دِل کی‘‘۔ حالانکہ بارہا سوتے ہیں جو محض بلاقصد زبان سے نکل جائے مقبول ہو جاتا ہے و لہٰذا حدیث ِ صحیح میں ارشاد ہوا: ’’جب نیند غلبہ کرے تو ذکر و نماز ملتوی کر دو، مبادا (کہیں ایسا نہ ہو کہ) کرنا چاہو استغفار اور نیند میں نکل جائے کوسنا‘‘۔
تو ثابت ہوا کہ یہاں شرط بمعنیٔ حقیقی نہیں بلکہ یہ مقصود کہ ان شرائط کا اجتماع ہو تو وہ دُعا بروجۂ کمال ہے اور اس میں توقعِ اجابت کو نہایت قوت خصوصاً جبکہ محسنات کو بھی جامع ہو، اور اگر شرائط سے خالی و تو فی نفسہٖ وہ رِجائے قبول نہیں، محض کرم و رحمت یا توافقِ ساعت ِ اجابت، قبول ہو جانا دوسری شرط ہے۔ (بہرحال یہ بات ثابت ہوئی کہ یہاں شرائط اپنے حقیقی معنوں میں نہیں کہ ان شرائط کے بغیر دُعا قبول ہی نہ ہو، ہاں! اتنا ضرور ہے کہ اگر یہ شرائط دُعا میں جمع ہو جائیں تو دُعا کامل ہے اور اس میں قبولیت کا امکان قوی، بالخصوص جبکہ وہ دیگر نیک اُمور کو بھی شامل ہو، اسکے برعکس اگر دُعا شرائط و آداب سے خالی ہو تو اسکی قبولیت کی اُمید نہیں، ہاں البتہ کرم و رحمت ِ الٰہی ہو جائے یا دُعا کی قبولیت کی گھڑی ہو اور دُعا قبول ہو جائے تو اور بات ہے)۔
آدابِ دُعا کہ آیات و احادیث ِ صحیحہ معتبرہ و ارشاداتِ علمائے کرام سے ثابت، جن کی رعایت ان شاء اللہ ضرور باعث ِ اِجابت (قبولیت کا سبب) ہو، وہ ساٹھ ہیں، اِکاون حضرت مصنف علام قدس سرہ نے ذکر فرمائے اور 9فقیر غفراللہ تعالیٰ نے بڑھائے۔
ادب1: دل کو حتیٰ الامکان خیالاتِ غیر (دوسروں کے خیالات) سے پاک کرے۔ رب عزوجل کا خاص محلِ نظر (خاص نظر کرم فرمانے کی جگہ) دِل ہے۔
ادب2،3،4: بدن و لباس و مکان، پاک و نظیف و طاہر ہوں… کہ اللہ تعالیٰ نظیف ہے، نظافت کو دوست رکھتا ہے۔
ادب5: دُعا سے پہلے کوئی عملِ صالح کرے کہ خدائے کریم کی رحمت اسکی طرف متوجہ ہو۔ صدقہ، خصوصاً پوشیدہ، اس اَمر میں اثر تمام رکھتا ہے (یعنی دُعا کی قبولیت میں بہت موثر ہے)۔ وُجوب اگر منسوخ ہے، تو استحباب ہنوز باقی ہے)۔
ادب6: جن کے حقوق اسکے ذمہ ہوں، ادا کرے یا اُن سے معاف کرا لے۔ خلق (یعنی بندوں) کے مطالبات گردن پر لیکر دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے حضور بھیک مانگنے جائے اور حالت یہ ہو کہ چار طرف سے لوگ اس سے چمٹے داد و فریاد کا شور کر رہے ہیں، اسے گالی دی، اسے مارا، اسکا مال لے لیا، اسے لوٹا، غور کرے اسکا یہ حال قابلِ عطا و نوال ہے یا لائقِ سزا و نکال، و حسبنا اللہ ذوالجلال۔
ادب7: کھانے پینے لباس و کسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام خوار و حرام کار (حرام کھانے والے اور حرام کام کرنے والے) کی دُعا اکثر رَد ہوتی ہے۔
ادب 8: دُعا سے پہلے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے،کہ نافرمانی پر قائم رہ کر عطا مانگنا بے حیائی ہے۔
ادب9: وقت ِ کراہت نہ ہو تو دو رکعت نماز خلوصِ قلب سے پڑھے کہ جالب ِ رحمت ہے اور رحمت، موجب ِ نعمت۔
ادب 10، 11، 12: دُعا کے وقت باوضو، قبلہ رُو، مودب (باادب) دوزانو بیٹھے یا گھٹنوں کے بل کھڑا ہو۔
ادب 13،14: اعضاء کو خاشع اور دِل کو حاضر کرے۔
حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ غافل دِل کی دُعا نہیں سنتا‘‘۔
